الجواب باالله التوفیق:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں لوگوں کے لیے ٹہرے تاکہ وہ آپ سے (حج کے اعمال کے بارے میں) سوال کریں۔ تو ایک شخص آۓ اور کہنے لگے:"مجھے دھیان نہ رہا، اور میں نے قربانی سے پہلے حلق کر لیا (یعنی سر منڈوا لیا)۔ "تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔"[١]
(یعنی ترتیب میں تقدیم و تاخیر سے کوئی حرج نہیں، حج درست ہے۔)
فقہاء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ حاجی کے لیے جائز ہے کہ وہ 10 ذوالحجہ کو جمرۂ عقبہ کے رمی سے پہلے طوافِ زیارت کر سکتا ہے، لیکن افضل یہی ہے کہ اعمال کی ترتیب اسی طرح ہو جس طرح نبی کریم ﷺ نے ادا فرمائی: یعنی پہلے رمی، پھر قربانی، پھر حلق یا قصر، اور پھر طوافِ زیارت۔تاہم اگر کوئی حاجی طوافِ زیارت کو رمی سے پہلے انجام دے تو اس کا حج درست ہے اور اس پر کوئی فدیہ یا کفارہ لازم نہیں ہوگا۔
قال الإمام ابن حجر الهيتمي:
(وهذا الرمي و الذبح والحلق والطواف يسن ترتيبها كما ذكرنا)...فإن خالف صح لإذنه ﷺ في ذالك. [٢]
١) صحيح البخاري (٨٣)
* صحيح مسلم (١٣٠٦)
٢) تحفة المحتاج(٢١٤/٥)
* كنز الاغبين(٥٤٦/٢)
* مغني المحتاج (٢٩٣/٢)